Tuesday 21 June 2016

بلوچستان کا مسئلہ۔ 1

بلوچستان کا مسئلہ۔ 1۔
 از برخور  دار  اچکزئی
بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بلوچستان کا مسئلہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور شاید اس میں ان کا کوئی قصور نہ بھی ہو، کیونکہ میڈیا پر بلوچستان کے حوالے سے خاموشی (Media gag) ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر کچھ بولا نہیں جا رہا تو کچھ ہو بھی نہیں رہا۔

١.گمشدہ افراد اور مسخ شدہ لاشیں ایک حقیقت ہے، اور را ایک جھوٹ۔ ملا منصور ایک حقیقت ہے اور بھشن یادو ایک جھوٹ, کوئٹہ شورا ایک حقیقت ہے اور NDS ایک جھوٹ۔

٢۔ بلوچستان میں کسی طرف سے بھی داخل ہوں، کوئٹہ تک آپ کو درجنوں سیکورٹی چیک پوسٹ ملیں گے جن پر آپکو باقاعدہ شناختی کارڈ کے ساتھ اینٹری کرانی پڑتی ہے ۔ اور جب آپ اینٹری کروا رہے ہوتے ہیں تو آپ کے پاس سے اسلحہ بردار موٹرسائیکل سواروں کا ایک دستہ گزرتا ہے جن سے کوئی بازپرس نہیں ہوتی (اچھے طالبان)۔ کالی شیشوں والی گاڑیاں جن کی ڈیش بورڈ پر پاکستان کا جھنڈا لگا ہوتا ہے انہی چیک پوسٹوں پر گزرتی ہیں، کوئی نہیں پوچھتا۔

٣۔ جب سے پاکستان بنا ہے ۔ یہ ستر سال بلوچستان پر حالت جنگ میں گزرے ہیں۔ تو اسی حساب سے معیشت اور ترقی کا اندازہ بھی لگا لیں۔ کوئلہ اور دیگر معدنیات اگر فوج/FC کے کنٹرول میں ہیں، گیس اور اسکی رائلٹی تو وفاق بانٹتی ہے تو ابھی تک کیوں سوئی کے عوام کو گیس کی سہولت میسر نہیں؟ گوادر اگر اتنا ہی بڑا گیم چینجر ہے تو گوادر کے عوام کو اس گیم چینجر کا کوئی فائدہ کیوں نہیں پہنچا؟ 'سردار ترقی نہیں کرنے دیتے' والی دلیل غلط ہے۔ اگر نواب بگٹی کو آج مار سکتے تھے تو بلوچ عوام کی خاطر تب بھی مار سکتے تھے۔ لیکن وفاق کے لیے ایک سردار سے ڈیل آسان تھی بہ نسبت بلوچ عوام کے۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آغاز حقوق بلوچستان پیکج اس مسئلے کا حل ہے تو دعا ہی کی جاسکتی ہے۔گیس کی سہولت تو ایک طرف رہی گیس کی کچھ رائلٹی شاید اس سال ملے۔ کوئٹہ کے لیے پانچ ارب روپے نواز شریف صاحب نے دو سال پہلے اعلان کیا تھا، تاحال نہیں ملے۔ سی پیک کا مغربی روٹ بھی بلوچستان کے لیے گذشتہ اعلانات کی طرح ہی ایک اور اعلان ہے۔

ساتھ ہی ساتھ ایک اور بات کی وضاحت کرتا چلوں،آج کل ایک بات کا رواج چلا ہے کہ کچھ بولو تو کہتے ہیں کہ پنجاب کو گالیاں دے رہے ہو۔ اور نتیجے میں اہل پنجاب گالیوں پر اتر آتے ہیں۔ بھیا پنجاب کو کوئی گالیاں نہیں دے رہا۔ پنجاب کی سڑکیں، ٹرینیں اور پل پنجاب کو مبارک۔ گالیاں اس فوجی اور سول انتظامیہ اور ان سدا بہار سیاست دانوں کو پڑتی ہیں جو ہر آمر کی گود میں بیٹھ کر عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ ہاں یہ گلہ اہل پنجاب سے رہے گا کہ کبھی بھی استحصال زدوں کے لیے آواز نہیں اٹھائی ۔ بلکہ بات سمجھنے کے بجائے اخروٹ، وحشی، نکما اور مٹروا جیسی پھبتیاں کسنے لگتے ہیں، یا دوسروں کی تکلیف سمجھے بغیر 'محنت کر حسد نہ کر' جیسے بے حس اور رکیک حملے۔ اور اگر آپ اس اشرافیہ کو پنجاب کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور ان کی مخالفت کو پنجاب کی مخالفت تصور کرتے ہیں تو پھر آپ ان کے لیے۔ ہیں ہمارے لیے نہیں ۔
ابھی اور بھی باتیں ہیں۔ اسلحہ اور منشیات کا کاروبار، ایرانی تیل کی سمگلنگ۔ اور معدنیات پر بڑے بھائی کا کنٹرول میرے اپنے گاؤں میں آٹھ سال طویل جنگ۔ کچلاک میں طالبان۔ بڑے بھائی کے ڈیتھسکواڈز۔ عبیداللہ خٹک اور اس کے جیسے اور جنرل جو ابھی بھی اسی لیول کی کرپشن میں ملوث ہیں، ان کے قصے۔ پھر کبھی بات ہوگی ۔




No comments: