سوال.
دانش خان
6 اکتوبر 2016 کو انگریزی اخبار ڈان میں چھپی خبر سے جو معاملہ شروع ہوا اس نے 29 اپریل 2017 کو اچانک ایک بحران کی شکل اس وقت اختیار کرلی جب وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے ایک حکمنامے کو فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے رد کردیا. جس کے بعد ایک غیر یقینی کی سی کیفیت محسوس ہونے لگی، حزب مخالف کی جماعت پی ٹی آئی نے اپنا وزن فوج کے پلڑے میں ڈال دیا جبکہ پی پی پی کی طرف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے فوج کے مؤقف کی حمایت کی، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے عاصمہ شیرازی سے بات کرتے ہوئے ٹوئٹ کو حدود پھلانگنے سے تعبیر کیا جبکہ فرحت اللہ بابر نے جو کہ پارٹی کا مؤقف تھا بیچ کا راستا لیا. تقریباً ایک ھفتے سے زائد کا عرصہ غیر یقینی کی صورتحال رہی اسی دوران حکمران جماعت کے سرکردہ افراد کے اجلاس جاری رہے اور بالآخر دونوں اطراف سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا اور 10 مئي 2017 کو معاملہ خوش اسلوبی سے اختتام کو پہنچا جس کے تحت وزارت داخلہ نے انکوائری رپورٹ کی پیرا 18 میں دی گئی سفارشات پہ عملدرآمد کیلئے نیا نوٹیفکیشن جاری کیا اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی 29 اپریل والی ٹوئٹ واپس لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ ٹوئٹ کسی فرد یا اداری کے خلاف نہیں تھی. اس کے بعد سوشل اور روایتی میڈیا پہ ایک طرف تو آرمی چیف کی فھم و فراست اور جمہوریت پسندی کی تعریف کی جا رہی ہے اور دوسری طرف یہ باور کیا جا رہا ہے کے یہ سوشل میڈیا کا اثر تھا جس نے عسکری قیادت کو انا اور ضد چھوڑ کہ مصالحت پہ مجبور کیا. میری ناقص رائے میں یہ دونوں باتیں مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں. اگر پاکستان میں سوشل میڈیا اتنی ہی طاقتور ہے جتنا فرض کیا جا رہا ہے تو نورین لغاری / احسان اللہ احسان کو مجوزہ معافی اور انکی قومی دھارے میں شمولیت بھی منسوخ ہو چکی ہوتی، مولانا عبدالعزیز لال مسجد والے سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور اچھے اور برے طالبان کی پالیسی بھی ختم ہو چکی ہوتی کیونکہ ان معاملات پہ بھی سوشل میڈیا پہ ایک واضح مؤقف مسلسل دیکھنے میں آتا ہے. اور جہاں تک چیف صاحب کی فہم و فراست کا تعلق ہے تو یقیناً ان میں ہوگی سی لئے وہ اتنے اہم عہدے پہ براجماں ہیں. جہاں تک ڈان لیک معاملے کا تعلق ہے تو اس نے اپنے ادارے مفادات کا یقیناً خیال رکھتے ہوئے الجھے ہوئے معاملے کو سلجھایا ہوگا. ڈی جی آئی ایس پی آر ذاتی حیثیت میں کبھی اس طرح کی ٹوئٹ نہیں کرسکتے جب تک ادارے اور چیف کی مکمل آشیرباد حاصل نہ ہو. اس کے بعد درج ذیل پوائنٹس پر گفتگو کروں گا.
1. وہ کیا عوامل تھے جو دونوں اطراف کو لچک دکھانے کا باعث بنے.
2. کیا اس سارے قضیہ میں سولین بالادستی قائم ہوئی.
3. کیا مسلم لیگ نواز کی حکومت نے عسکری قیادت کو حکومتی معاملات میں زیادہ جگہ دی ہے.
29 اپریل کے بعد ایسے لگ رہا تھا کہ معاملہ انگریزی والے ڈو آر ڈائے( do or die) کی طرف جا رہا ہے. حکمران جماعت کے اندر واضع طور پہ دو رائے نظر آ رہی تھیں ایک وہ جو مزید کوئی رعایت دینے کے حق میں نہیں تھے. وہ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی سے لے کر پرویز رشید کی برطرفی تک بہت سی چیزوں پہ نالان تھے. مگر دوسری کیمپ جس میں شاید شہباز شریف اور چوہدری نثار شامل تھے جن کی رائے یہ ہوگی کہ اب ہم انتخابات کے سال میں داخل ہو رہے ہیں اور تمام اشارے ہماری جیت کی پیشگوئی کر رہے ہیں اور انہی انتخابات کے بعد ممکنہ طور پر سیاسی جانشین کو بھی آگے لایا جائے گا تو ایسی صورت حال میں تصادم ساری بساط کو لپیٹ میں لے سکتا ہے انکی رائے غالب آئی. جبکہ دوسری طرف عسکری قیادت کیلئے تین پڑوسی ملکوں کے ساتھ سرحدی تنازعات کی صورتحال چین پاک راہداری اور امریکہ کے ساتھ، عرب-امریکہ سربراہ کانفرنس کے نتیجے میں، جس میں ہمارے وزیراعظم بھی مدعو ہیں، تعلقات میں ممکنہ برف پگھلنے کے اور اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر فوجی اور سول امداد جیسی باتوں نے عسکری قیادت کو اپنے موقف میں نرمی کا مظاہرہ کرنے اور ڈیڈلاک کی صورتحال کو طویل رکھنے سے باز رکھا.
دوسری بات کہ کیا 10 مئی کے بیانات اور عسکری قیادت کی جانب سے آئین اور جمہوریت کے ساتھ تجدید عہد وفا کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ سولین بالادستی قائم ہوئی؟ اسکا مختصر جواب ہے نہیں. کیونکہ اقتدار میں آنے کے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ میان نواز شریف کی مسلم لیگ کو قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت ملی ہے اور اس کی حمایت کا بیس پنجاب ہے لہذا وہ سول ملٹری تعلقات کی جو نوعیت ہے جس میں توازن ملٹری کی طرف ہے اس کو ٹھیک کرنے اور سولین سائیڈ کی طرف لانے میں کامیاب ہو جائیں گے. لیکن بعد کے واقعات سے ظاہر ہوا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف مستقل پیچھے ہٹتے آرہے ہیں. مشرف کے معاملے سے لے کر 10 مئی کے وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن تک حکومت نے مسلسل عسکری قیادت کو خوش رکھنے کی کوشش کی ہے. اگر وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے بغیر ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی ٹوئٹ واپس لیتے یا آرمی چیف اسکو اسکے موجودہ عہدے سے ہٹا دیتے تو کہا جا سکتا تھا کہ سولین بالادستی کے قیام کی طرف ایک قدم بڑہے ہیں. لیکن یہاں تو وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں سینیٹر پرویز رشید کے نام کا اضافہ کرکے عسکری قیادت کو خوش کیا گیا جس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹوئٹ واپس لی گئی اور حکومت اور جمہوریت سے تجدید عہد وفا کیا گیا.
تیسری پوائنٹ کا مختصر جواب ہاں میں ہے جس کا تھوڑا ذکر اوپر دوسری پوائنٹ میں آگیا ہے مگر مختصراً کچھ اور باتیں شامل کردیتا ہوں. مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت، جنرل جنجوعہ کی مشیر برائے قومی سلامتی مقرری، مختلف اوقات اور واقعات کے وجہ سے مشاھد اللہ خان، پرویز رشید، طارق فاطمی اور راؤ تحسین کی برطرفی، وزیر خارجہ کا نہ ہونا، بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کی مفاہمتی عمل کی ناکامی، دنیا کے اہم دارلحکومتوں میں سفیروں کی تعیناتی اپنی مرضی سے نہ کرسکنا اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے ہمسائے جیسے تعلقات استوار کرنے میں ناکامی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے بلند باگ دعوؤں کے باوجود مسلسل جگہ دیتی آئی ہے.
دانش خان
6 اکتوبر 2016 کو انگریزی اخبار ڈان میں چھپی خبر سے جو معاملہ شروع ہوا اس نے 29 اپریل 2017 کو اچانک ایک بحران کی شکل اس وقت اختیار کرلی جب وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے ایک حکمنامے کو فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے رد کردیا. جس کے بعد ایک غیر یقینی کی سی کیفیت محسوس ہونے لگی، حزب مخالف کی جماعت پی ٹی آئی نے اپنا وزن فوج کے پلڑے میں ڈال دیا جبکہ پی پی پی کی طرف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے فوج کے مؤقف کی حمایت کی، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے عاصمہ شیرازی سے بات کرتے ہوئے ٹوئٹ کو حدود پھلانگنے سے تعبیر کیا جبکہ فرحت اللہ بابر نے جو کہ پارٹی کا مؤقف تھا بیچ کا راستا لیا. تقریباً ایک ھفتے سے زائد کا عرصہ غیر یقینی کی صورتحال رہی اسی دوران حکمران جماعت کے سرکردہ افراد کے اجلاس جاری رہے اور بالآخر دونوں اطراف سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا اور 10 مئي 2017 کو معاملہ خوش اسلوبی سے اختتام کو پہنچا جس کے تحت وزارت داخلہ نے انکوائری رپورٹ کی پیرا 18 میں دی گئی سفارشات پہ عملدرآمد کیلئے نیا نوٹیفکیشن جاری کیا اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی 29 اپریل والی ٹوئٹ واپس لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ ٹوئٹ کسی فرد یا اداری کے خلاف نہیں تھی. اس کے بعد سوشل اور روایتی میڈیا پہ ایک طرف تو آرمی چیف کی فھم و فراست اور جمہوریت پسندی کی تعریف کی جا رہی ہے اور دوسری طرف یہ باور کیا جا رہا ہے کے یہ سوشل میڈیا کا اثر تھا جس نے عسکری قیادت کو انا اور ضد چھوڑ کہ مصالحت پہ مجبور کیا. میری ناقص رائے میں یہ دونوں باتیں مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں. اگر پاکستان میں سوشل میڈیا اتنی ہی طاقتور ہے جتنا فرض کیا جا رہا ہے تو نورین لغاری / احسان اللہ احسان کو مجوزہ معافی اور انکی قومی دھارے میں شمولیت بھی منسوخ ہو چکی ہوتی، مولانا عبدالعزیز لال مسجد والے سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور اچھے اور برے طالبان کی پالیسی بھی ختم ہو چکی ہوتی کیونکہ ان معاملات پہ بھی سوشل میڈیا پہ ایک واضح مؤقف مسلسل دیکھنے میں آتا ہے. اور جہاں تک چیف صاحب کی فہم و فراست کا تعلق ہے تو یقیناً ان میں ہوگی سی لئے وہ اتنے اہم عہدے پہ براجماں ہیں. جہاں تک ڈان لیک معاملے کا تعلق ہے تو اس نے اپنے ادارے مفادات کا یقیناً خیال رکھتے ہوئے الجھے ہوئے معاملے کو سلجھایا ہوگا. ڈی جی آئی ایس پی آر ذاتی حیثیت میں کبھی اس طرح کی ٹوئٹ نہیں کرسکتے جب تک ادارے اور چیف کی مکمل آشیرباد حاصل نہ ہو. اس کے بعد درج ذیل پوائنٹس پر گفتگو کروں گا.
1. وہ کیا عوامل تھے جو دونوں اطراف کو لچک دکھانے کا باعث بنے.
2. کیا اس سارے قضیہ میں سولین بالادستی قائم ہوئی.
3. کیا مسلم لیگ نواز کی حکومت نے عسکری قیادت کو حکومتی معاملات میں زیادہ جگہ دی ہے.
29 اپریل کے بعد ایسے لگ رہا تھا کہ معاملہ انگریزی والے ڈو آر ڈائے( do or die) کی طرف جا رہا ہے. حکمران جماعت کے اندر واضع طور پہ دو رائے نظر آ رہی تھیں ایک وہ جو مزید کوئی رعایت دینے کے حق میں نہیں تھے. وہ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی سے لے کر پرویز رشید کی برطرفی تک بہت سی چیزوں پہ نالان تھے. مگر دوسری کیمپ جس میں شاید شہباز شریف اور چوہدری نثار شامل تھے جن کی رائے یہ ہوگی کہ اب ہم انتخابات کے سال میں داخل ہو رہے ہیں اور تمام اشارے ہماری جیت کی پیشگوئی کر رہے ہیں اور انہی انتخابات کے بعد ممکنہ طور پر سیاسی جانشین کو بھی آگے لایا جائے گا تو ایسی صورت حال میں تصادم ساری بساط کو لپیٹ میں لے سکتا ہے انکی رائے غالب آئی. جبکہ دوسری طرف عسکری قیادت کیلئے تین پڑوسی ملکوں کے ساتھ سرحدی تنازعات کی صورتحال چین پاک راہداری اور امریکہ کے ساتھ، عرب-امریکہ سربراہ کانفرنس کے نتیجے میں، جس میں ہمارے وزیراعظم بھی مدعو ہیں، تعلقات میں ممکنہ برف پگھلنے کے اور اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر فوجی اور سول امداد جیسی باتوں نے عسکری قیادت کو اپنے موقف میں نرمی کا مظاہرہ کرنے اور ڈیڈلاک کی صورتحال کو طویل رکھنے سے باز رکھا.
دوسری بات کہ کیا 10 مئی کے بیانات اور عسکری قیادت کی جانب سے آئین اور جمہوریت کے ساتھ تجدید عہد وفا کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ سولین بالادستی قائم ہوئی؟ اسکا مختصر جواب ہے نہیں. کیونکہ اقتدار میں آنے کے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ میان نواز شریف کی مسلم لیگ کو قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت ملی ہے اور اس کی حمایت کا بیس پنجاب ہے لہذا وہ سول ملٹری تعلقات کی جو نوعیت ہے جس میں توازن ملٹری کی طرف ہے اس کو ٹھیک کرنے اور سولین سائیڈ کی طرف لانے میں کامیاب ہو جائیں گے. لیکن بعد کے واقعات سے ظاہر ہوا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف مستقل پیچھے ہٹتے آرہے ہیں. مشرف کے معاملے سے لے کر 10 مئی کے وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن تک حکومت نے مسلسل عسکری قیادت کو خوش رکھنے کی کوشش کی ہے. اگر وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے بغیر ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی ٹوئٹ واپس لیتے یا آرمی چیف اسکو اسکے موجودہ عہدے سے ہٹا دیتے تو کہا جا سکتا تھا کہ سولین بالادستی کے قیام کی طرف ایک قدم بڑہے ہیں. لیکن یہاں تو وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں سینیٹر پرویز رشید کے نام کا اضافہ کرکے عسکری قیادت کو خوش کیا گیا جس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹوئٹ واپس لی گئی اور حکومت اور جمہوریت سے تجدید عہد وفا کیا گیا.
تیسری پوائنٹ کا مختصر جواب ہاں میں ہے جس کا تھوڑا ذکر اوپر دوسری پوائنٹ میں آگیا ہے مگر مختصراً کچھ اور باتیں شامل کردیتا ہوں. مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت، جنرل جنجوعہ کی مشیر برائے قومی سلامتی مقرری، مختلف اوقات اور واقعات کے وجہ سے مشاھد اللہ خان، پرویز رشید، طارق فاطمی اور راؤ تحسین کی برطرفی، وزیر خارجہ کا نہ ہونا، بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کی مفاہمتی عمل کی ناکامی، دنیا کے اہم دارلحکومتوں میں سفیروں کی تعیناتی اپنی مرضی سے نہ کرسکنا اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے ہمسائے جیسے تعلقات استوار کرنے میں ناکامی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے بلند باگ دعوؤں کے باوجود مسلسل جگہ دیتی آئی ہے.