بلوچستان
کا مسئلہ (2)۔ از برخور دار
اچکزئی
اس دن جو کہانی سنائی وہ
بلوچستان کے بلوچ علاقوں کی تھی۔ آج بلوچستان کے شمال اور شمال مغرب میں واقع
پشتون علاقے کی بات ہوگی۔ جنہوں نے بلوچستان دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ بلوچستان
پشتون اکثریتی صوبہ ہے۔ اور میں افغان مہاجرین کو نہیں گن رہا۔ سردار اختر مینگل صاحب کی تقریر ریکارڈ پر ہے کہ بلوچ اتنے ہیں نہیں جتنا
پشتون افغان پچھلے تیس سال میں مرا ہے۔ اور محمود خان اچکزئی کی تقریر بھی ریکارڈ
پر ہےکہ مردم شماری کر لو اگر ہم (پشتون) ایک کروڑ ہوے اور آپ دس لاکھ تو بھی ہم
صوبے کی حق حکمرانی میں برابر کے شریک ہونگے۔
خیر۔
کچلاک کوئٹہ شہرسے 14 کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک
بڑا قصبہ ہے، پنجاب اور خیبر پختونخوا اور افغانستان کےلیے جنکشن کی حیثیت سے کافی
اہمیت کا حامل۔ یہاں اکثریت
کاکڑ قبیلے کی ہے۔ اور آنجہانی ملا
اختر منصور اسی قصبے میں ایک مدرسہ کے مہتمم تھے۔ کچلاک میں آپ کو ایسے لگتا ہے
جیسے آپ ہلمند یا روزگان میں گھوم رہے ہوں۔ جدھر دیکھو اچھے طالبان۔ موٹر
سائیکلیں، کمبل اور کلاشنکوف۔ یاد رہے کہ کوئٹہ کی سیکورٹی پچھلے گیارہ سال سے ایف
سی کے حوالے ہےکچلاک تک۔ اگر آپ پاکستانی شہری ہیں، پہنچنے میں آپ کو کم از کم 12
چیک پوسٹ پر اینٹری کرانی پڑتی ہے۔ لیکن ان اسلحہ برداروں سے کوئی نہیں پوچھتاپشین
میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے لیکن شہر سے دور۔ اس سارے علاقے میں ہر جگہ
طالبان،اور شیعہ کافر کی وال چاکنگ آپکو نظر آئیگی ۔ حالانکہ پچھلے چودہ سو سال میں
یہاں شیعہ آبادی کبھی رہی نہیں۔
پشین کے بعد قلعہ عبداللہ
آتا ہے اور اس میں ہماری تحصیل گلستان۔ یہاں کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ کبھی گلستان کے سیب مشہور تھے آج کل افیم اور کرسٹل
میتھ۔ چرس اور بندوقوں کی بھی کافی تعریف کی جاتی ہے۔ کبھی گلستان کے میلے مشہور
تھےآج کل نیٹو کے کنٹینرز سے لوٹے گئے جوتے۔ ہماری بہت تھوڑی آبادی ہے۔ جو قیامت
خیبر پختونخوا میں طالبان کے ہاتھوں بپا کی گئی اور نوے کی دہائی-وہی نوے کی دہائی میں
ہماری تحصیل میں مجاہدین کے ذریعے مسلط کی گئی۔ میں نے اپنے بچپن کا زیادہ حصہ مٹی
کے بنکرز میں گزارا ہے۔ لوگوں کے گھروںکو جلایا گیا۔ کم و بیش 90% آبادی بے گھر
ہوئی۔ لوگوں کے پیاروں کی تشدد زدہ لاشیں ان کے گھروں کے سامنے پھینکی گئیں۔ اور
وہ گلستان جو کبھی تعلیم،جمہوری سیاست اور معیشت کا منبع تھا،منشیات، اسلحے اور
اغوا برائے تاوان کا حب بن گیا ۔ گلستان بازار کو میں اسلحہ اور منشیات کی وال
سٹریٹ کہتا ہوں۔ یہاں اگر ایف
سی کے ایک ہزار جوان تعینات ہیں تو دوسری طرف افیم اور کرسٹل میتھ کے درجنوں
کارخانے۔ ایسا گھر نہیں جس میں راکٹ اورمارٹر کے گولے نہ لگے ہوں۔ گورنمنٹ گرلز
ہائی سکول گلستان، جہاں میں پڑھتا تھا، میں ہر سال آٹھ دس مارٹر اور 95 ایم ایم کے
گولے ضرور گرتےاور اسی سکول میں قومی ترانے کے بعد ہم سے تین بار 'میں پاکستانی
ہوں' کا حلف نما نعرہ لگوایا جاتا۔ ان حالات میں ہمارے اپنے گاؤں کی خواتین نےپہلے
خود پڑھا پھر ڈنڈے کی زور پر ہمیں پڑھایا، انسان بنایا۔ افغانستان دنیا کی 90%
افیم سپلائی کرتا ہے۔ اس 90% کا 75%پاکستان کے راستے دنیا تک پہنچتا ہے۔ یہ کام
چمن سے متصل افغان بارڈر پر ہوتا ہے۔ کس کی نگرانی میں ہوتا ہے تو آپ خود ہوشیار
ہیں۔
کہنے کو تو ابھی اور بھی باتیں ہیں۔ وہ پھر کھبی سہی ۔
No comments:
Post a Comment